جب سے مئی سے بیماری کی چھٹی پر ہوں، گھر میں ایک الگ ہی دیسی فلم چل رہی ہے۔صبح کا وقت نسبتاً سکون والا ہوتا ہے، جب بیوی اپنے کام پر نکل جاتی ہے اور بچے اسکول اور کنڈرگارٹن روانہ ہو جاتے ہیں۔ وہ وقت ایسا ہوتا ہے جیسے پورا محلہ کسی جشن کے بعد خاموش ہو گیا ہو۔
لیکن شام تک؟ بس سمجھ لیں کہ گھر “دیسی بگ باس” کا سیٹ بن جاتا ہے۔دن کے وقت میں خود کو کسی شاہی مہمان جیسا محسوس کرتا ہوں۔ ناشتہ ٹیبل پر تیار ہوتا ہے، جو اکثر ماں کے ہاتھ کا بنایا ہوا ہوتا ہے، اور میں کمبل میں لیٹا موبائل اسکرول کر رہا ہوتا ہوں۔ لیکن ماں کبھی کبھار زور دے کر کہتی ہیں: “بیٹا، کچھ کر لو! سارا دن بیکار مت رہو!” اور میرا دل کرتا ہے کہ کہوں: “امی، ڈاکٹر نے کہا ہے آرام کروں!” لیکن دیسی مائیں ڈاکٹر کی ہدایت سے زیادہ اپنی حکمت پر یقین رکھتی ہیں، تو بحث کا فائدہ نہیں۔
شام ہوتے ہی بچوں کی واپسی ہوتی ہے، اور سکون کے سارے خواب بکھر جاتے ہیں۔ 7 سالہ بیٹی اسکول کی کہانیاں سنانے آتی ہے: “بابا، آج میں نے یہ کیا، آج ٹیچر نے وہ کہا!” اور 3 سالہ بیٹا؟ وہ گھر کے ہر کونے کو اپنی شرارتوں کا میدان سمجھتا ہے۔ کبھی صوفے پر جمپنگ، کبھی کھلونوں کو دیواروں پر مارنا، اور کبھی کچن میں جا کر چمچوں سے ڈھول بجانا۔میں اکثر آواز لگاتا ہوں
“بیٹا، کھلونے سمیٹ لو! شور بند کرو!” لیکن میری بات ان بچوں کے لیے ایسے ہے جیسے پس منظر میں چلنے والی موسیقی۔ سنائی تو دیتی ہے، لیکن کوئی دھیان نہیں دیتا۔
بیٹی بڑی معصومیت سے جواب دیتی ہے: “بابا، ہم کھیل رہے ہیں، آپ آرام کریں۔”
اور بیٹا؟ وہ صرف مسکرا کر اپنی حرکتیں مزید تیز کر دیتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو: “بابا، آپ کی باتیں ہمارے کھیل کے ماحول کو خراب کر رہی ہیں۔”
کھانے کے وقت ایک الگ ہی کہانی شروع ہوتی ہے۔ جب میں بڑی معصومیت سے کہتا ہوں “
امی، آج بریانی ہو جائے؟” تو وہ ایک نظر ڈال کر جواب دیتی ہیں: “بریانی؟ جو کچھ پکا ہے، وہ کھاؤ، یہ اسپیشل کھانے کی فرمائشیں اپنی بیوی کے لیے رکھو” میں خاموشی سے سوچتا ہوں، “شاید بیوی مان جائے۔”
لیکن جب شام کو بیوی کام سے تھکی ہاری لوٹتی ہے!، اور میں ہمت کر کے فرمائش کر بیٹھتا ہوں: “بریانی بنا دو، یا کچھ خاص؟” تو وہ پہلے لمحے کے لیے رُکتی ہیں، پھر مجھے ایسے دیکھتی ہیں جیسے کہہ رہی ہوں: “یہ بات واقعی تم نے کہی؟ یا مجھے سننے میں غلطی ہوئی ہے؟” ان کے تاثرات کچھ یوں ہوتے ہیں کہ جیسے ذہن میں حساب لگا رہی ہوں: “سارا دن کام کے بعد، یہ بندہ مجھ سے بریانی کی امید رکھتا ہے؟”پھر وہ بڑے اطمینان سے، لیکن طنزیہ انداز میں کہتی ہیں: “بریانی؟ بالکل! کیوں نہ ابھی بریانی کے ساتھ تمہارے لیے شاہی ٹکڑے اور قورمہ بھی بنا دوں؟ تم چاہو تو کھانے کے بعد زردہ بھی ہو جائے!” یہ کہتے ہوئے ان کا چہرہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ابھی عدالت لگا کر سزا سنا دیں گی۔اس لمحے میں فوراً سر جھکا کر کہتا ہوں: “نہیں، جو بھی بنایا ہے، وہی کافی ہے۔ الحمدللہ!” اور دل ہی دل میں دعا کرتا ہوں کہ یہ غلطی دوبارہ نہ ہو۔ پھر جو کچھ بھی ٹیبل پر رکھا ہوتا ہے، چپ چاپ کھاتا ہوں اور سوچتا ہوں: “بیوی سے فرمائشیں کرنے کی جرات شاید آئندہ کبھی نہ ہو۔”
رات کا وقت آتا ہے تو دل کرتا ہے کہ اب آرام ملے گا، لیکن نہیں! بیٹی کہانی سننے کی ضد کرتی ہے، اور بیٹا کبھی کمبل کے نیچے چھپنے کا کھیل شروع کر دیتا ہے تو کبھی صوفے پر چڑھ کر جمپنگ کرتا ہے۔ میں تھک کر کہتا ہوں: “بیٹا، بس کرو، کل اسکول ہے!” لیکن وہ دونوں اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں، اور میں بس تماشائی بن کر یہ سب دیکھتا ہوں۔
یہ بیماری کی چھٹی کسی دیسی رئیلٹی شو سے کم نہیں۔ ماں کے دیسی ٹوٹکے، بیوی کی دلچسپ اور معنی خیز نظروں، اور بچوں کی نہ ختم ہونے والی توانائی کے بیچ میرا حال ایسا ہے جیسے کوئی بینچ پر بیٹھا کھلاڑی، جو کھیل کا حصہ تو نہیں، لیکن میدان کی گہماگہمی کا حصہ ضرور ہے۔ بوریت ہو یا ہنسی، یہ دن کسی یادگار کہانی سے کم نہیں ہیں!