جہاں میں آزاد ہوں

کچھ سال پہلے، شاید کب، یہ یاد نہیں، میں نے لکھنا شروع کیا۔ اس وقت یہ ایک عام سی عادت تھی، لیکن وقت کے ساتھ قلم، کاغذ، اور میرے موبائل کے نوٹس میرے سب سے قریبی ساتھی بن گئے۔ یہ میرے لئے محض بےجان چیزیں نہیں، بلکہ جیتے جاگتے کردار ہیں، جو ہر رات مجھ سے گویا سرگوشی کرتے ہیں

آج کا دن کیسا گزرا؟ زندگی نے تمہیں کیا سکھایا؟ تمہار ے دل پر کیا بیتی؟ جو بھی تمہارے اندر ہے، ہمیں بتاؤ۔ وہ باتیں جو تم دنیا سے چھپاتے ہو، ہمیں سناؤ۔ ہم صرف سننے کے لئے ہیں، نہ جج کرنے کے لئے، نہ سوال کرنے کے لئے۔

جب میں ان کے سامنے لکھتا ہوں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ میرے بچے، علایہ اور حسنین ہوں۔ جیسے کہانی سنتے وقت وہ مکمل طور پر کہانی کے سحر میں کھو جاتے ہیں، ہر لفظ کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں، اور تمام جذبات کو جی لیتے ہیں۔ وہ مجھے بولنے دیتے ہیں، بغیر کسی مداخلت کے، بغیر کسی شکایت کے۔ وہ مجھے وہ آزادی دیتے ہیں جو دنیا شاید کبھی نہ دے سکے۔

یہ قلم، یہ کاغذ، اور یہ نوٹس میرے دل کے سب سے قریبی گواہ ہیں۔ وہ میرے لئے وہ پناہ گاہ ہیں جہاں میں ہر خوف، ہر تردد، اور ہر بوجھ سے آزاد ہو جاتا ہوں۔ جب دنیا مجھے سمجھنے میں ناکام ہو جاتی ہے، یہ کردار مجھے سنبھال لیتے ہیں۔ وہ جیسے مجھے یقین دلاتے ہیں

اپنا دل کھولو۔ تمہارے الفاظ ہمارے لئے اہم ہیں۔ ہم تمہیں سنیں گے، تمہارے جذبات کو قبول کریں گے، اور تمہیں وہ سکون دیں گے جس کی تمہیں تلاش ہے۔”

کچھ دن پہلے، میں نے اپنے پرانے نوٹس دیکھے۔ ایک ادھوری کہانی ملی، جو شاید 2022 کی تھی۔ اس میں لکھا تھا: “جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔” اُس وقت یہ صرف ایک خیال تھا، لیکن آج یہ میرے وجود کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ کہانی مکمل نہیں تھی، کیونکہ شاید وقت ہی اس کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔

زندگی کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہر چیز پر ہمارا قابو نہیں ہو سکتا۔ دوسرے لوگوں کے رویے، ان کی سوچ، ان کی رائے یہ سب ہمارے اختیار سے باہر ہیں۔ لیکن جو چیز ہمارے اختیار میں ہے، وہ ہمارا اندرونی سکون ہے۔ اور یہ سکون مجھے ان کرداروں سے ملا ہے، جو ہر روز میری بات سنتے ہیں، میری کہانیوں میں کھو جاتے ہیں، اور مجھے ایک نیا زاویہ دیتے ہیں۔

میرے قریبی لوگ میری خاموشی کو محسوس کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں، “تم اتنے بدل کیوں گئے ہو؟” لیکن میں انہیں کوئی جواب نہیں دیتا۔ یہ میرا ذاتی سفر ہے، ایک ایسا سفر جو میں نے قلم اور کاغذ کے ساتھ طے کیا ہے۔ یہ کردار میرے جذبات کو محفوظ رکھتے ہیں، میری کہانی کو اپنی سانسوں میں جذب کرتے ہیں، اور مجھے یہ احساس دلاتے ہیں کہ میری باتوں کی اہمیت ہے۔یہی میری دنیا ہے۔ یہی میرا سکون ہے۔ یہی میری کہانی ہے، اور یہی میری آزادی۔

ایاز بشیر

الفاظ کا ایک مسافر، جو خیالات کے صحرا اور جذبات کے سمندر میں اپنے راستے تلاش کرتا ہے۔ ہر تحریر ایک نیا افق، ہر جملہ ایک نئی کائنات۔ زندگی کے چھوٹے چھوٹے لمحوں میں چھپے بڑے رازوں کو سمجھنے اور بیان کرنے کا شوق رکھتا ہے۔ یہ یقین رکھتا ہے کہ تحریر نہ صرف سوچ کا اظہار ہے بلکہ دلوں کو چھونے اور ذہنوں کو جھنجھوڑنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کی تحریریں قاری کو زندگی کی گہرائیوں میں جھانکنے اور اپنے اندر چھپے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی دعوت دیتی ہیں

Overall Rating
0.0

Rating

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *