“یادوں کے خزانے: میرے نانا اور زندگی کے انمول سبق”

زندگی کے کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو ہماری روح کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ رشتے صرف خونی تعلق نہیں ہوتے بلکہ ان میں محبت، بے تکلفی، اور گہرائی کا ایسا امتزاج ہوتا ہے جو کسی بھی تعلق کو خاص بنا دیتا ہے۔

میرے نانا، مرحوم حاجی فرزند علی، کے ساتھ می ایسا ہی رشتہ تھا۔ وہ میرے لیے نہ صرف ایک نانا بلکہ ایک دوست، ایک رہنما، اور زندگی کے بڑے سبق دینے والے استاد تھے۔ ہم ایک دوسرے کو “یار” کہہ کر مخاطب کرتے تھے، اور یہ لفظ ہمارے تعلق کی بے تکلفی اور قربت کو بیان کرنے کے لیے کافی تھا۔

یہ بلاگ میں نے اس وقت لکھا جب میرے نانا ابو، جنہیں میں محبت سے “ابا جی” کہتا تھا، اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی رحلت میرے لیے ایک بہت بڑا صدمہ تھی، کیونکہ ان کے ساتھ گزاری گئی یادیں میرے دل کے قریب ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی، اور ان کے الفاظ میں وہ تاثیر تھی جو دل میں اتر جاتی تھی۔ اللہ نے نانا کو غیر معمولی یادداشت عطا کی تھی۔ ان کے ذہن میں تقسیمِ ہند سے پہلے کے قصے ایسے تازہ تھے جیسے کل کی بات ہو۔ وہ ایک ایسی تاریخ کے گواہ تھے جو آج کتابوں میں بھی نہیں ملتی۔مجھے ان کی کہانیوں میں سب سے زیادہ وہ لمحات یاد ہیں جب وہ دوسری جنگِ عظیم کے محاذ کا ذکر کرتے تھے۔ یہ کوئی ڈرامائی داستانیں نہیں تھیں، نہ ہی انہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے کوئی خطرناک حالات کا سامنا کیا تھا، لیکن جنگ کے محاذ پر ہونا بذاتِ خود ایک ایسا تجربہ ہے جو انسان کے دل و دماغ پر نقش چھوڑ جاتا ہے۔

وہ بتاتے کہ کس طرح فوجی اپنی ذمہ داری نبھات تھے، کس طرح جنگ کا دباؤ ان کے اعصاب پر اثر ڈال سکتا تھا، اور کس طرح ایک سپاہی کو ہر حال میں مستعد رہنا ہوتا تھا۔ ان کی باتوں سے میں نے یہ سیکھا کہ ذمہ داری کا مطلب کیا ہوتا ہے اور انسان کو ہر حال میں مضبوط کیسے رہنا چاہیے۔

نانا کی زندگی ایک چلتی پھرتی کتاب تھی۔ ان کے پاس کہانیوں کا ایک ایسا خزانہ تھا جو کبھی ختم نہ ہوتا تھا۔ وہ جب اپنی یادوں کے پنوں کو کھولتے، تو میں ان کے الفاظ میں کھو جاتا۔ ان کی باتوں میں وہ گہرائی تھی جو کسی سکول کے نصاب میں نہیں مل سکتی۔ ان کی کہانیاں محض یادیں نہیں تھیں، بلکہ وہ زندگی کے ایسے سبق تھے جو دل میں اتر جاتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ یہ سکھایا کہ عزت صرف اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے ملتی ہے اور انسان کی اصل پہچان اس کے کردار میں ہوتی ہے۔نانا کی باتوں میں حکمت کے موتی چھپے ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ زندگی میں کامیابی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان ہمیشہ آگے بڑھتا رہے، بلکہ یہ ہے کہ انسان اپنے قدموں کو مضبوط رکھے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔

ان کی باتوں میں ایک خاص سکون تھا، اور ان کا انداز ایسا تھا جیسے وہ بات نہیں کر رہے بلکہ زندگی کا ایک نیا باب کھول رہے ہوں۔ان کے ساتھ وقت گزارنا میرے لیے ایک نعمت تھی۔ وہ نہ صرف میرے نانا تھے بلکہ میرے لائف کوچ بھی۔ ان کے تجربات، ان کے الفاظ، اور ان کے انداز نے مجھے زندگی کو ایک مختلف زاویے سے دیکھنا سکھایا۔ ان کی نصیحتیں میرے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ان کی رحلت میرے لیے ایک عہد کے خاتمے کی طرح تھی۔ ان کے ساتھ وہ تاریخ، وہ یادیں، اور وہ تجربات بھی خاموش ہو گئے جو ان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ لیکن ان کی باتیں، ان کی نصیحتیں، اور ان کے ساتھ گزارے گئے وہ حسین لمحے ہمیشہ میرے دل میں زندہ رہیں گے۔

یہ بلاگ ان یادوں کی ایک جھلک ہے جو میرے دل میں بستی ہیں۔ یہ ان کئی بلاگز میں سے ایک ہے جو میں نے اپنے نوٹس میں محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ شاید وقتاً فوقتاً میں اپنی یادوں کی گہرائی میں جھانکوں اور ان بلاگز کو آپ کے ساتھ بانٹوں۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی یادداشت کی گہرائی میں جا کر ان کہانیوں کو بھی زندہ کروں جو میں نے اپنے نانا اور دیگر بزرگوں سے سنی ہیں۔ یہ کہانیاں وقت کے ساتھ کہیں چھپ سی گئی ہیں، لیکن ان کے سبق آج بھی میری زندگی کا حصہ ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے نانا مرحوم حاجی فرزند علی آخرت کی منازل آسان فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ ان کے ساتھ گزرا ہر لمحہ میرے لیے قیمتی ہے۔ ان کی باتیں میرے دل میں روشنی کی طرح زندہ ہیں، اور ان کا پیار میرے وجود کا حصہ ہے۔

ابا جی، یہ الوداع نہیں۔ یہ ایک امید ہے کہ انشاءاللہ ہم اگلے جہان میں دوبارہ ملیں گے، جہاں وقت کی قید نہیں ہوگی، جہاں ہم ایک بار پھر “یار” بنیں گے اور کبھی جدا نہیں ہوں گے۔

اللہ حافظ، نانا ابو، آپ کی محبت، یادیں، اور نصیحتیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔

Overall Rating
0.0

Rating

ایاز بشیر

الفاظ کا ایک مسافر، جو خیالات کے صحرا اور جذبات کے سمندر میں اپنے راستے تلاش کرتا ہے۔ ہر تحریر ایک نیا افق، ہر جملہ ایک نئی کائنات۔ زندگی کے چھوٹے چھوٹے لمحوں میں چھپے بڑے رازوں کو سمجھنے اور بیان کرنے کا شوق رکھتا ہے۔ یہ یقین رکھتا ہے کہ تحریر نہ صرف سوچ کا اظہار ہے بلکہ دلوں کو چھونے اور ذہنوں کو جھنجھوڑنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کی تحریریں قاری کو زندگی کی گہرائیوں میں جھانکنے اور اپنے اندر چھپے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *